بچپن

بچپن میں جب اپنے قد سے لمبا اور اپنے وزن سے تقریباً آدھا، کتابوں سے بھرا بیگ لاد کر اسکول جایا کرتے تھے تو ان لوگوں کو حسرت سے دیکھا کرتے تھے جو ہنستے مسکراتے آپس میں ہنسی مذاق کرتے محض دو چار کتابیں ہاتھ میں تھامے کالج کی جانب رواں دواں ہوتے تھے۔ ہمیں ان پر رشک آتا تھا کہ دیکھو کتنے مزے میں ہیں کم از کم ہماری طرح بیگز تو نہیں اٹھانے پڑتے یقیناً ان کا اتنا سخت ہوم ورک بھی نہیں ہو گا۔

جب خود کالج پہنچے تو یونیورسٹی والوں پر رشک آنے لگا کہ اصل موج تو ان کی ہے۔ یہاں تو سارا سال کیمسٹری، ریاضی اور فزکس میں سر کھپاؤ، وہاں ان کی پڑھائی آسان ہے۔ دو چار اسائنمنٹس کیں مڈٹرم پاس کیا اور لو جی ہو گئے گریجویٹ ۔

یونیورسٹی پہنچے تو رشک کرنے کی یہ عادت اب ہمیں سوٹ بوٹ پہنے بابو بنے آفس میں جاب کرتے لوگوں کی جانب لے گئی کہ اصل خوش قسمت تو یہ لوگ ہیں کہ یونیورسٹیوں کی تعلیم ختم کر لی اور زندگی میں سیٹل ہو گئے ۔۔۔

پھر جونہی انسان آفس میں پہنچتا ہے، تو اسے اپنے اوپر والی پوسٹ والے پر رشک آتا ہے ۔ کئی لوگوں کو بزنس مین پر رشک آتا ہے حسرت بھری نگاہوں سے انھیں دیکھتے ہیں ۔۔۔
غرض کہ حسرتیں لئے قبروں میں جا لیٹتے ہیں ۔
انسان ساری عمر حسرت اور رشک کے بیچ گزارتا ہے۔ کاش یہ شکر کرنا سیکھ لے۔ شکر کے ساتھ گزارنا سیکھ لے۔
اسکول جاتے ہوئے ان کو دیکھے جو اسکول تو جانا چاہتے ہیں مگر حالات کی بنا پر اسکول نہیں جا پاتے۔ کالج جاتے وقت ان کو دیکھے جن کی پڑھائی ان کی نالائقی یا غیر موزوں حالات کی بناء پر اسکول پر ہی ختم ہو گئی۔ یونیورسٹی جائے تو ان کو دیکھے جو یونیورسٹی آنا چاہتے تھے لیکن گھر کے حالات نے انٹر کے بعد چھوٹی موٹی جاب کرنے پر مجبور کر دیا۔ آفس میں جاتے ہیں تو ان کو دیکھیں جو یونیورسٹی پاس نہ کر سکے، پڑھائی بیچ میں ہی منقطع کرنا پڑی ۔۔۔

غرض یہ کہ انسان جب تک پیچھے نہیں دیکھتا شکر نہیں کرتا ۔۔۔ اگر انسان یوں ہی آگے دیکھ کر حسرت اور رشک ہی کرتا رہا، یا تو ناشکرا بن جائے گا یا پھر حاسد ۔۔

One thought on “بچپن

Leave a comment

Design a site like this with WordPress.com
Get started