کھانا

آج پھر گھر پر سبزی پکی تھی اور میرا دل برگر کھانے کو تھا۔ گھر سے نکلا مکڈونلڈ پر لمبی لائن میں میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک پاس والی دیوار کے سائے میں ایک شخص آ بیٹھا، جو غالباً مزدور تھا اور ایک رومال سے دو سُوکھی روٹیاں نکالیں۔ روٹیاں کھولیں تو اندر ہری مرچ کا اچار تھا، سامنے روٹی کھول کر رکھی اور ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگی اور نوالہ توڑا۔ میں اُسے غور سے دیکھنے لگا۔ اس کے ہر لقمے پر اس کے چہرے پر ایک عجیب خوشی اور شکر محسوس ہو رہا تھا۔ اتنے میں ایک اور مزدور آ کر اس کے پاس دیوار کے سائے میں بیٹھ گیا اور اپنے رومال سے روٹی نکالی، لیکن اس کی روٹی میں اچار بھی نہ تھا۔ تب اس پہلے مزدور نے کھاتے ہوئے اپنی روٹی کا اچار اس کی روٹی میں رکھ کر کہا، “میرا پیٹ بھر گیا ہے، اچھا کیا جو تم اچار نہیں لائے، ورنہ میرا ضائع ہو جانا تھا۔” بس یہ وہ آخری الفاظ تھے جو میں نے غور سے سنے بھی اور دیکھا بھی ۔۔۔ اتنے میں آواز آئی، جی سر آپ کا آرڈر کیا ہے؟
میں نے مکڈونلڈ کے سٹاف کی طرف دیکھا تو میرا دل بھر آیا اور منہ میں ایک لفظ نہیں تھا، بس اتنا کہا کہ ۔۔۔ “مجھے برگر نہیں پسند” اور کھڑکی چھوڑ کر ان مزدوروں کے پاس جا کر رُک گیا۔ مجھے سر پر کھڑا دیکھ کر وہ دونوں بوکھلا گئے۔ ایک نے کہا باؤ جی! ابھی چلے جاتے ہیں، بس روٹی کھانے چھاؤں میں بیٹھ گئے۔ اب تو آنکھیں بھی بھر آئیں۔ میں نے رومال سے آنکھیں صاف کیں اور گھٹنوں کے بل ان کے پاس بیٹھ کر کہا، اپنی روٹی سے ایک نوالہ دو گے؟ اس نے پوری روٹی میری طرف بڑھا دی اور جھٹ سے ایک پرانی سی بوتل کھول کر اپنا پانی بھی میرے آگے کر دیا۔
میں نے ایک نوالہ اچار کے ساتھ جو منہ میں لیا ۔۔۔ کاش میرے پاس الفاظ ہوتے کہ اس دنیا کے سب کھانوں سے لذیذ لقمہ تھا، میں نے پوچھا یہ کھانا اتنا لذیذ کیسے ہے؟ وہ بھی اچار کے ساتھ؟
مزدور نے کہا باؤ جی! حلال کمانے کی کوشش کرتے ہیں شاید تبھی مزہ آتا ہے، رُوکھی سُوکھی کھانے کا بھی ۔
مجھے نہیں یاد میں نے کتنے لقمے کھائے اس کے بعد اس کی روٹی کے اور ہاں ۔۔۔ “مجھے اب برگر نہیں پسند، سادہ روٹی کھاتا ہوں جو بہت لذیذ ہوتی ہے۔ 👇👇

Leave a comment

Design a site like this with WordPress.com
Get started